Dawat-e-Tauheed

جب مسجدیں بند، اور بازار کھلے ہوں: مسلم لڑکیوں کا ایمان خطرے میں!

ایک تلخ مگر ضروری نوحہ — تحریر: بہزاد عارف

جب مسجدیں بند، اور بازار کھلے ہوں: مسلم لڑکیوں کا ایمان خطرے میں!

آج کا المیہ کیا ہے؟ یہ کہ مسلمان خود اپنے ہاتھوں سے اپنی نسلوں کو تباہ کر رہا ہے — اور اسے اس تباہی کا شعور تک نہیں۔ مسلمان لڑکیاں روزانہ دین سے دور ہوتی جا رہی ہیں، عشقِ مجازی میں گرفتار ہو کر اپنا دین، اپنی عزت، اپنی پہچان اور اپنی غیرت سب کچھ قربان کر رہی ہیں۔

افسوس! آج ایک بہت بڑی تعداد میں مسلمان لڑکیاں ہندو لڑکوں کے ساتھ تعلقات قائم کر رہی ہیں، زنا کے مرتکب ہو رہی ہیں، اور بالآخر مرتد ہو کر کفر کے دامن میں پناہ لے رہی ہیں۔ اور ہم؟ ہم یا تو خاموش ہیں، یا صرف سوشل میڈیا پر پوسٹیں کر کے اپنی غیرت کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

غیرت کہاں مر گئی؟

کبھی ہم وہ قوم تھے جس کی فاطمہؓ، عائشہؓ، خدیجہؓ، حفصہؓ دنیا کے لیے مثالی خواتین تھیں۔ آج ہم وہ قوم ہیں جس کی بیٹیاں انسٹاگرام پر اپنی آدھی ننگی تصویریں ڈال کر فخر محسوس کرتی ہیں۔ کبھی ہماری بیٹیاں قرآن حفظ کرتی تھیں، آج وہ بُوائے فرینڈز کے ساتھ ویڈیو کالز پر وقت گزارتی ہیں۔

کس نے بگاڑا انہیں؟ صرف باہر کا ماحول؟ نہیں! اصل بگاڑ ہم خود ہیں۔

مسجد کا دروازہ لڑکیوں کے لیے بند کیوں؟

آج تک ہم نے کتنی مسجدیں ایسی بنائیں جہاں ہماری بہن، بیٹی، ماں جا کر نماز پڑھ سکے؟ کتنی مسجدوں میں خواتین کے لیے وضو کا انتظام ہے؟ کتنی مسجدوں میں جمعے کے خطبے، دینی کلاسز، سیرت کی محفلیں خواتین کے لیے بھی ہوتی ہیں؟

ہم کہتے ہیں: “عورتوں کا مسجد میں آنا فتنہ ہے!”

سوال یہ ہے کہ جب وہی عورت اسکول، کالج، کوچنگ، بازار، ہسپتال، یونیورسٹی، آفس جاتی ہے تو وہاں فتنے نہیں ہوتے؟

جب تم خود اپنی بیٹی کو صبح سات بجے یونیفارم میں بنا دوپٹہ اسکول بھیجتے ہو تو کیا وہاں فرشتے تعلیم دیتے ہیں؟ جب تم خود اسے کو ایجوکیشن یونیورسٹی میں داخلہ دلواتے ہو تو کیا وہاں پر وردگار نگران ہوتا ہے؟

تو پھر مسجد کے دروازے بند کیوں؟ وہ جگہ جو اللہ کا گھر ہے، وہ جگہ جو ایمان کو بچاتی ہے، وہ جگہ جہاں سے ہدایت کا نور نکلتا ہے — وہاں تم اپنی بیٹیوں کو جانے نہیں دیتے، لیکن بازار اور سینما میں جانے کی اجازت ہے؟

یہ سوچ، یہ منافقت، یہ لاپروائی — یہی تو اصل فتنہ ہے۔

مزار پر بھیجتے ہو، مگر مسجد سے روکتے ہو؟

آج ہم نے دین کو “رسم” بنا دیا ہے۔ مزاروں پر چادریں چڑھانا، قبروں پر جا کر دعائیں مانگنا، وہاں عورتوں کو لے جانا — سب کچھ “ثواب” سمجھ کر کرتے ہیں۔ مگر جب کوئی عورت قرآن سیکھنے کے لیے مسجد آنا چاہے، تو فوراً “فتنے” کا شور مچ جاتا ہے۔ یہ کیسا دین ہے جو قبروں کے لیے کھلا ہے، مگر قرآن کے لیے بند ہے؟

والدین کہاں کھڑے ہیں؟

آج ماں باپ اس قابل مذمت حال میں پہنچ چکے ہیں کہ جب بیٹی کہتی ہے، “مجھے مسجد جانا ہے”، تو انکار کر دیتے ہیں۔ لیکن جب بیٹی کہتی ہے، “مجھے ہندو دوست کی سالگرہ پارٹی میں جانا ہے”، تو اجازت فوراً مل جاتی ہے۔ یہ دیّوثیت نہیں تو اور کیا ہے؟

“الدَّيُّوثُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ”

(دیّوث جنت میں نہیں جائے گا)

کیا یہ حدیث سننے کے بعد بھی ہم خاموش رہیں گے؟ کیا اب بھی ہم مسجدوں کے دروازے بند رکھیں گے؟ کیا اب بھی ہم اپنی بیٹیوں کو صرف دنیاوی تعلیم دے کر دنیا اور آخرت دونوں برباد کریں گے؟

مسجد کا دروازہ نہ کھولا تو مرتد نسل پیدا ہوگی!

یاد رکھو! اب بھی وقت ہے! اگر تم نے عورتوں کے لیے مسجدوں کے دروازے نہ کھولے، اگر تم نے انہیں قرآن سے، سیرت سے، دین سے نہ جوڑا، تو وہی لڑکیاں کل تمہاری نسلوں کو کفر کی طرف لے جائیں گی۔

اسلام صرف مردوں کا دین نہیں — یہ عورتوں کا بھی دین ہے۔ ان کی اصلاح، ان کی تربیت، ان کی رہنمائی — سب کچھ ضروری ہے۔ اور اس کا آغاز مسجد سے ہونا چاہیے۔

اے امامو! اے ذمہ دارو!

کیا تم صرف مردوں کے دین کے رکھوالے ہو؟ کیا تمہیں عورتوں کا ایمان سنبھالنے کا ذمہ نہیں دیا گیا؟

اگر ہاں — تو مسجد کے دروازے عورتوں کے لیے کھولو، انہیں دین سکھاؤ، انہیں شعور دو، انہیں ان کی اصل پہچان واپس دو۔

نتیجہ:

اگر ہم نے اب بھی اصلاح نہ کی، تو کل ہمیں ایمان فروش، غیرت فروش اور دین فروش کہا جائے گا — اور وہ وقت بہت قریب ہے جب ہم مسجدوں میں صرف بوڑھے دیکھیں گے، اور بازاروں میں ہماری بیٹیاں، ہماری نسلیں… غیروں کی بانہوں میں ہوں گی۔

اللہ ہمیں شعور دے، ہماری بیٹیوں کو ایمان پر قائم رکھے، اور ہمیں غیرت والا مسلمان بنائے — آمین۔

Scroll to Top