تحریر: بہزاد عارف
سعودی عرب سے نفرت کیوں؟ یہ بغض کیوں؟
آج ایک عجیب دور آ چکا ہے۔ وہ لوگ جو خود دین سے دور ہیں، وہ سعودی عرب جیسے مقدس ملک پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ہر محفل میں، ہر فورم پر، کچھ لوگ سعودی عرب کے نظام، قیادت، اور ماحول پر اعتراض کرتے ہیں، گویا اُنہیں وہاں کا سکون کھٹکتا ہے، وہاں کی دینی فضا سے چڑ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ان لوگوں کو سعودی عرب سے تکلیف کیوں ہے؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہاں بھی وہی کچھ ہو جو فلسطین، برما، کشمیر، چین یا دیگر ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ حرمین شریفین کے گرد بھی بارود کی بو آئے؟
سعودی عرب وہ سرزمین ہے جسے اللہ ربّ العزت نے اپنی خاص رحمتوں سے نوازا ہے۔ وہی زمین ہے جہاں قرآن نازل ہوا، وہی زمین ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے نقوش محفوظ ہیں، وہی زمین ہے جہاں دن رات طوافِ کعبہ جاری ہے، اور وہی سرزمین ہے جہاں شرک، بت پرستی، قبر پرستی، اور دیگر باطل افعال کو سختی سے روکا گیا ہے۔
کیا یہ کم بڑی بات ہے؟
دنیا میں کون سا ملک ہے جہاں لاکھوں لوگ روزانہ اللہ کے گھر کا طواف کرتے ہیں؟ کون سا ملک ہے جہاں ریاستی سطح پر شریعت کے نفاذ کی کوشش کی جاتی ہے؟ کون سا ملک ہے جہاں حکمران حج و عمرہ کے لیے سہولتیں فراہم کرتے ہیں؟
یاد رکھو! سعودی عرب صرف ایک جغرافیائی حدود میں قید ملک نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کا مرکز ہے۔ وہاں کچھ بھی ہو، وہ ہمارا دل ہے۔ اگر اس دل کو تکلیف پہنچی، اگر وہاں بدامنی آئی، اگر وہاں پر بھی مسلمانوں کے ساتھ وہی ظلم ہوا جو دنیا کے دیگر حصوں میں ہو رہا ہے، تو پھر ہم کہاں جائیں گے؟
کیا سعودی عرب کا دشمن ہونا اسلام کا دوست ہونا ہے؟
آج جس انداز سے لوگ سوشل میڈیا پر سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں، وہ درحقیقت دشمنانِ اسلام کے ایجنڈے کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں کہ وہ کس مقام کے خلاف زبان درازی کر رہے ہیں۔ جو حرم کی حفاظت میں مصروف ہیں، جو مسجدِ نبوی کے زائرین کی خدمت کرتے ہیں، ان پر تنقید کر کے ہم کس طرف جا رہے ہیں؟
یاد رکھو! سعودی عرب اگر کمزور ہوا تو…
اگر کل کو سعودی عرب میں بھی فتنہ و فساد ہوا، اگر وہاں بھی ظالموں کی حکومت آ گئی، اگر وہاں بھی کفار نے قبضہ جما لیا تو تم صرف ایک ملک نہیں کھو گے، تم اپنی روح کھو دو گے! تمہارا قبلہ محفوظ نہ رہا تو تمہاری عبادتیں بھی بے چین ہو جائیں گی۔
ہمیں سوچنا ہوگا!
ہمیں اپنا قبلہ محفوظ رکھنا ہے۔ ہمیں اپنے روحانی مرکز کی حفاظت کرنی ہے۔ ہمیں اس ملک کے لیے دعا کرنی ہے، نہ کہ نفرت۔ ہاں! اصلاح کی بات ضرور کرو، مگر تہذیب کے ساتھ۔ تنقید ضرور کرو، مگر محبت کے ساتھ۔ اگر وہاں کچھ غلط ہے تو دعا کرو کہ اللہ اسے بہتر کرے۔ لیکن یہ کہنا کہ “ہمیں سعودی عرب پسند نہیں” دراصل یہ کہنا ہے کہ “ہمیں وہ روشنی پسند نہیں جو اس ملک سے پھوٹتی ہے”۔
لہٰذا اے مسلمانو!
اپنے دلوں سے بغض نکالو۔ اس پاک سرزمین سے محبت کرو۔ حرمین کی عزت کرو۔ اس ملک کی سالمیت کے لیے دعا کرو، کیونکہ اگر وہاں امن ہے تو دنیا کے لاکھوں مسلمانوں کے دل مطمئن ہیں۔ اگر وہاں شریعت ہے تو دنیا کو اسلام کا زندہ نمونہ نظر آتا ہے۔
اللہ سعودی عرب کی حفاظت فرمائے، حرمین کو قیامت تک آباد رکھے، اور ان دشمنوں کو ناکام کرے جو اس ملک کے امن کے دشمن ہیں۔ آمین!